ساز ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

کیوں ٹھہرجاتے ہیں دریاسر شام
روØ+ Ú©Û’ تار ہلا، غور سے سن

یاس کی چھائوں کی سونے والے
جاگ اور شوردرا غور سے سن

کبھی فرصت ہو تو اے صبØ+ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سن

کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا، غور سے سن

دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن

ناصر کاظمی